پاکستانی بچوں میں پڑھنے لکھنے کے رجحان کو فروغ دینے کے اقدامات

kids-reading

کراچی – پاکستان میں تعلیمی ماہرین بچوں کو لکھنے پڑھنے کی ترغیب دے رہے ہیں تاکہ ان میں رواداری کو فروغ دیا جائے اور انہیں ان صلاحیتوں کو سیکھنے میں مدد دی جائے جن کی بالغ ہونے پر انہیں ضرورت پڑے گی۔

پاکستانی بچوں میں مطالعہ کا شوق جگانے کی ایک کوشش میں والدین کو فروری میں اپنے بچوں کو کراچی میں منعقدہ بچوں کے ادبی میلے میں لے جانے کا موقع ملا۔

مطالعہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے کسی شخص میں تنقیدی سوچ اور زندگی گزارنے کے لیے درکار دیگر صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔

پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر اور بچوں کے ادبی میلے کی شریک بانی امینہ سید نے کہا کہ مطالعہ بچوں کو زندگی کے بارے میں مختلف تناظرات فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی معلومات اور تناظرات کی بنیاد پر وہ انہیں با اختیار بناتا ہے اور ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کی تشکیل کرتا ہے۔ مطالعہ سے بچے ایک دوسرے سے اور بڑی دنیا اور خیالات سے مربوط رہتے ہیں۔ اس سے انہیں دیگر ثقافتوں اور انداز فکر کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مطالعہ سے رواداری بھی پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ انہیں دنیا میں پائے جانے والے تنوع، ورثے اور ثقافتوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مطالعہ سیکھنے کو فروغ دیتا ہے کیونکہ وہ بچوں کو معلومات کی فراہمی کے علاوہ ان کی خواندگی، ترجمانی اور اظہار کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔

کثیر الحسیاتی طریقوں سے مطالعہ کا فروغ

اگرچہ ادبی میلے جیسے مواقع مطالعہ کو فروغ دے سکتے ہیں مگر پاکستان میں ایک بڑا چیلنج بچوں میں پڑھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔

اس مقصد کے لیے پاکستان میں اختیار کیا جانے والا ایک طریقہ کثیر الحسیاتی ذرائع کو شامل کرنے کی کوشش ہے جہاں افراد سیکھنے کے عمل کے دوران ابتدا میں ہی تمام ممکنہ حسیات کو استعمال کرتے ہیں۔

ٹافی ٹی وی کی پینٹر طالیہ ظفر نے بچوں کے ادبی میلے میں ایک پینل مباحثے کے دوران کہا کہ بصری علامات مثلاً رنگ، شکلیں، ہندسے، اشارے اور جسمانی حرکات ہماری تدریس میں ایک ایسا طریقہ ہیں جس کے ذریعے آپ کسی بچے میں پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں نمو فراہم کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آوازوں کو پہچاننا ننھے بچوں کے لیے ایک اہم استعداد ہے۔ کوئی کہانی سنتے وقت وہ کہانی میں پیش آنے والے واقعات کو دیکھتے، سنتے اور ان کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنے تخیل کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی عمر سے چلی آنے والی حسیات کی کمزوری بالغ عمر میں بھی ساتھ رہتی ہے۔ اسی وجہ سے والدین کے لیے یہ چیز اہم ہے کہ وہ ابتدا سے ہی اپنے بچوں کی حسیات کو ترقی دیں۔

ٹافی ٹی وی ان بہت سی تنظیموں میں سے ایک ہے جو اس طریقے کو استعمال کر رہی ہیں۔

اس آن لائن ادارے نے بچوں کے لیے معیاری پروگراموں کے فقدان کے مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ بچوں کو اردو کی داستانیں سکھانے کے لیے سرگرمیوں، گیتوں اور کہانیوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے پیچھے کار فرما سوچ یہ ہے کہ بچوں کے لیے سیکھنے کے عمل کو پر لطف بنایا جائے۔

ظفر نے کہا کہ جو چیزیں وہ گیتوں اور سرگرمیوں سے سیکھ سکتے ہیں وہ رٹا لگا کر سیکھنے سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوتیں۔

سیکھنے کی مشکلات کا شکار بچوں میں معالجی تعلیم و تجزیہ نامی ادارہ بھی مشکلات کا شکار بچوں کو سکھانے کے لیے یہی طریقہ استعمال کرتا ہے۔

ادارے کی چیف ایگزیکیٹو افسر شاہینہ علوی نے کہا کہ تدریس کے عمل میں بورڈ گیمز اور دیگر کثیر الحسیاتی طریقے بھی شامل ہیں۔

محض 25 سال قبل پاکستان میں سیکھنے کی مشکلات کا شکار بچوں کی تشخیص نہیں ہوتی تھی اور انہیں کبھی نہ پڑھ سکنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تاہم اب ایسی تنظیموں اور اساتذہ کی مدد سے صورت حال بدل رہی ہے جنہوں نے بچوں کو زندگی کے چیلنجوں سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہونے میں مدد دینے کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔

علوی نے کہا کہ گزرتے سالوں کے دوران ہماری جاری کوششوں سے بہت سی کامیاب مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں ایک سابق طالب علم ماہر فن تعمیر بن چکا ہے جبکہ ایک اور ڈاکٹر اور تیسرا کامیاب تاجر ہے۔