نائجیریا: تین سال قبل اغوا ہونے والی درجنوں طالبات رہا

ائجیریا کے حکام کا کہنا ہے کہ اسلامی شدت پسند گروہ بوکو حرام نے تین سال قبل اغوا کی گئی 276 طالبات میں سے 82 کو رہا کر دیا ہے۔
طلاعات کے مطابق طالبات کی رہائی حکومت اور بوکو حرام کے درمیان مذاکرات کے بعد ممکن ہوئی ہے۔
نائجیریا کے صدر محمدو بوہاری کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اتوار کو ابوجا میں ان طالبات کا استقبال کریں گے۔
یان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر ان طالبات کی رہائی کے سلسلے میں کیے جانے والے آپریشن میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز، فوج، سوئٹزر لینڈ کی حکومت، ریڈکراس، مقامی اور بین الااقوامی این جی اوز کے شکر گذار ہیں۔

21 لڑکیوں کو گذشتہ برس اکتوبر میں رہائی ملی تھی

لاگوس سے ہماری نامہ نگار سٹیفینی ہیگارٹی نے بتایا کہ یہ 82 طالبات اب نائجیریا کی فوج کی تحویل میں ہیں اور انھیں کیمرون کی سرحد کے پاس ایک دور دراز علاقے سے بانکی کے فوجی اڈے پر لایا گيا ہے۔
خیال رہے کہ تین سال قبل اغوا کی جانے والی ان 250 سے زیادہ اغوا شدہ لڑکیوں کو ‘چیبوک گرلز’ بھی کہا گیا ہے۔ ان کی رہائی کے لیے عالمی سطح اور سوشل میڈیا پر مہمات چلائی گئی تھیں۔
اس سے قبل بھی کچھ لڑکیاں رہا ہوئی تھیں تاہم حالیہ رہائی سے قبل اغوا شدہ لڑکیوں کی کل تعداد 195 بتائی گئی تھی۔
اب بھی آزاد ذرائع سے اس بات کی صدیق نہیں ہو سکی ہے کہ اس بار کتنی لڑکیوں کو رہائی ملی ہے۔ ان طالبات کے عوض بوکو حرام کے کتنے کارکنوں کو حکومت کی تحویل سے رہائی ملی ہے اس بابت بھی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔
اینوک مارک لاپتہ ہونے والی دو لڑکیوں کے والد ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں انھوں نے کہا ’یہ اچھی خبر ہے۔ ہم اس دن کا انتظار کرتے رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ باقی لڑکیوں کو بھی جلد رہائی ملے گی۔‘
ابھی یہ واضح نہیں کہ رہا کی جانے والی طالبات میں اینوک کی دونوں بیٹیاں شامل ہیں یا نہیں۔
اس سے قبل سہارا رپورٹرز کی ویب سائٹ کے مطابق رہائی پانے والی لڑکیاں بورنو ریاست کے گاؤں بانکی میں فضائی سروس کی منتظر ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے خاندانوں کے پاس بھجوانے سے قبل محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا اور ان سے پوچھ کچھ کی جائے گی۔
سنہ 2014 میں لڑکیوں کے اغوا کے بعد گذشتہ برس اکتوبر میں بہت سی لڑکیاں بوکو حرام کی قید سے بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوئی تھیں۔
گذشتہ ماہ صدر محمدو بوہاری نے کہا تھا ‘حکومت مقامی انٹیلیجنس کے ذریعے دیگر لڑکیوں اور لاپتہ افراد کو بعیر کسی نقصان کے رہا کرنے کے لیے مستقل مذاکرات کر رہی ہے۔’
http://www.bbc.com/urdu بشکریہ