اللہ آپ کی اگلے جہان کی مزدوری آسان کریں-تحریر محمد اظہر حفیظ

یکم مئی 2017
تحریر محمد اظہر حفیظ

-امی جی سکول ھیڈمسٹرس تھیں سخت مزدوری تھی تین بچے اور سکول ابا جی ایک سخت مزاج انسان اور واپڈا راولپنڈی میں ملازم تھے جب ھوش سنبھالا تو ماں باپ دونوں کو محنت کرتے پایا دونوں کی مزدوری سخت تھی امی ھمیں روزانہ رات کو نہلا کر سلاتی تھیں صبح وقت کم ھوتا ھے اور صبح صبح بالوں میں کنگھی کرکے دھلا ھوا یونیفارم اور پالش جوتے پہن کر وقت پر ھمیں سکول بھیج کر امی جی بھی سکول کے لیے چلی جاتی تھیں ھمیں ھوش سنبھالتے ھی وقت کی پابندی اور صفائی کی عادت ڈل گئی میری عادت تھی دیر تک جاگتے رھا اور صبح اٹھنے میں تنگ کرنا امی جی کہتی تھیں اظہر تو میری نوکری چھڑا دینی اے تیری وجہ نال مینوں دیر ھون دا ڈر ھوندا اے اگر میں دیر سے جاؤں گی تو باقی ٹیچرز سے کیسے وقت کی پابندی کرواسکوں گی تو اپنی ماں تے رحم کر، تے ویلے سر اٹھیا کر جی امی جی روز یہی تقریر چلتی تھی، سکول جاتے ھی ماسٹر صاحب ھاں جی سارے بچے اپنے ناخن چیک کراو بال کٹوائے ھوئے نے یونیفارم صاف اے تے پیری جتی کیڑ ی ماں والی پائی ھوئی اے محمد اظہر حفیظ نو ویکھو ماں پے نوکری کردے نے تے پر سب توں صاف بچے نے، بچے گھر جا کر اپنی ماؤں کو بتاتے تو وہ ھمارے گھر آجاتیں اپاجی تہاڈی وجہ تو روز ساڈے بچیاں دی بیستی ھوندی اے، امی باجی خیر اے کی ھویا، تسی جو بچے روز نہلا کے بھیج دیندے او تے گلاں ماسٹراں دیاں سانو سننیاں پیندیاں نے،
امی باجی انناں وڈا دن رات اے تھوڑا وقت بچیاں نوں وی دیا کرو،
امی اظہر میں کل لائلپور جانا اے میرا لال اے پیسے لے تے بابے نیامت کولوں کیلے لے کے کھا لئیں
سویرے سویرے سٹیٹ بنک سے تنخواہ لانی ھے امی کے ذمہ آس پاس کے تقریباً 25 سکولوں کی تنخواھوں کی ذمہ داری بھی تھی اور مہینے کے آخری دن امی کے لیے بہت سخت ھوتے تھے حفاظت سے بس پر تنخواہ لیکر آنا اور اسی دن اس کو تقسیم بھی کرنا، میرا لال خوبانیاں نہ کھانا او آج کل کچھیاں آندیاں نے پر او اظہر حفیظ ھی کی جیڑا گل من جاوے، بابے نیامت سے ایک درجن کیلے کھائے اور ساتھ آدھا کلو خوبانیاں بابا کاکا خوبانیاں نہ لے کٹھیاں تے کچیاں نے آپا جی ناراض ھون گے بابا توں نہ دسی، اور میں نے کھا لیں شام کو امی سکول سے فارغ ھو کر آئیں دل متلا رھا تھا خوبانیاں اپنا کام دکھا چکی تھیں اظہر کی گل اے ٹلا ٹلا کیوں اے امی الٹی محسوس ھو رھی اے، کی کھادا سی کیلے اچھا، ھور بس امی جی کیلے ھی اور نال ھی آوو دی آواز نال ساریاں خوبانیاں باھر، امی نے ایک الٹا ھاتھ میری چھاتی پر مارا امی اسی طرح مارتی تھیں منہ پر تھپڑ مارنا نا مناسب سمجھتی تھیں، اور رونے لگ گئیں اظہر ایک میں تھکی ھاری گھر آئی اتوں تیرے پُٹھے کم، کسی دی کوئی گل من وی لیا کر، میرے اللہ اس منڈے نو کداں سمجھاواں، چلو اے تے بچہ سے بابے نیامت نوں ھی خیال کرنا چاھی دا سی، امی بابے منع کیتا سی پر میں آپ لے کے کھادیاں سی، تیرا تے کم اے ماں نوں تنگ کرنا، لیکن امی نے کبھی بھی ھمارے نہانے اور صاف یونیفارم کی روٹین نہیں بدلی، کسی دن ھمارے سکول چھٹی بھی ھوتی تو جانا پڑتا کیوں کہ امی کے سکول چھٹی نہیں ھوتی تھی اور ھم سکول سے واپس آتے اور پھر کچھ نہ پوچھو، ھمارے الٹے کاموں کی وجہ سے امی نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور ھم راوالپنڈی آگئے اب ابا جی کی مزدوری امی سے بھی سخت یار میرے کپڑے رکھ پلندری جانا اے کل شام نوں آواں گا تے فر ملتان تے حیدرآباد سامان لیں جانا اے پرسوں پشاور تو سامان لیانا اے تے باقی دن تربیلا ڈیم تو ایک لین بچھا رھے آں سامان وی پورا کرنا اے تے لین وی بچھانی اے راستے وچ بڑے اوکھے پہاڑ نے اوتے جاندے جاندے پانی مک جاندا اے، اسی طرح زندگی گزرتی رھی اور پھر ھماری مزدوری کے دن شروع ھوئے، اظہر وقت نال گھر آیا کر لوکی اکھدے نے منڈا راتیں بارہ وجے گھر آوے تے ماں پے نوں سوچنا چاھیدا اے تے ساڈا جوان تے سویرے چار وجے آندا اے امی شائد تہاڈی بدعا لگ گئی اے جینا میں سوندا سی ھون سون دا وقت ھی نہی کئی کئی دن جاگدیاں گزر جاندے نے، لال کسی ماں نے وی کسے پتر نوں بدعا دیتی، امی جی تہاڈے پتر دی مزدوری بہت اوکھی اے کننے دن جاگدیاں گز جاندے نے، کننے سال ھو گئے چھ گھنٹے نہیں سوتا، ابا جی صاحب اننے پیسے کما کے کتھے لجانے کچھ اپنی جان دا خیال کر اور اسی طرح سمجھاتے سمجھاتےوہ الله پاس چلے گئے اور میں جاگ رھا ھوں اور مزدوری کر رھا ھوں، مجھے وقت کی پابندی اور انتھک محنت کی عادت اپنے ماں باپ سے ورثہ میں ملی، اکثر وقت کم ھوتا ھے نہانا بھی ھوتا ھے تو شاور کی نیچے نہاتے جوئے ٹوتھ برش بھی ساتھ ساتھ ھو رھا ھوتا ھے، ایک جگہ سے دوسری جگہ کے درمیان ٹریفک سگنلز پر دوپہر کا کھانا اب روٹین بن چکا ھے، ایک دن صبح گیارہ بجے کی فلائٹ لاھور کی تھی ایک بجے ڈی جی خان کی، تین بجے وھاں پہنچا اور پانچ بجے ملتان کی طرف روانہ ھوئے آٹھ بجے کی فلائٹ ملتان اسلام آباد تھی اور رات گیارہ بجے میں پھر گھر تھا، گاڑی ائرپورٹ پر ھی کھڑی کر گیا تھا ائرپورٹ سے گھر آتے ھوئے ابا جی یاد آگئے آنکھیں بھیگ گئی اور سوچ رھا تھا ایسے سفر میاں محمد حفیظ احمد کا بیٹا ھی کر سکتا ھے جو مزدور ماں باپ کا مزدور بیٹا ھے الحمدلله،امی ابو آپ دونوں کا شکریہ جو آپ نے ھمیں مزدور بنایا اور مزدوری کرنی سکھائی شکریہ، اللہ آپ کی اگلے جہان کی مزدوری آسان کریں امین آخرت آسان کریں امین